Monday, 4 March 2013

سیکورٹی یا عوام کیلئے پریشانی ؟ A Perverted Sense of Security

For English click on the below link:

VIP-Movement1
سیکورٹی یا عوام کیلئے پریشانی ؟
جب کبھی بھی ہماری عام سڑکوں یا گلیوں میں کسی یقینی تشدد آمیز واقعہ کا خدشہ ہوتا ہے تو ہماری حکومت اور انتظامیہ کا پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ مصروف مقامات کو بند کیا جائے، سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کی جائیں اور چیک پوسٹوں کے ذریعے مختلف علاقوں کو سِیل کر دیا جائے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات تو حالات ٹھیک ہونے کے بعد بھی کچھ جگہوں پر رکاوٹیں اور چیک پوسٹیں ویسے کی ویسے ہی رہتی ہیں ، بظاہر ہم شہریوں کے تحفظ کے لیے ہوتے ہیں۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ یہ سکیورٹی اصل میں ہم عوام کے لے لیے نہیں ہوتی بلکہ اس سے عوام کو صرف تکلیف اور بے جا پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی جب ہزارہ قبیلے کا قتلِ عام اور ایم کیو ایم کے استعفوں کے بعد بلاول ہاؤس کی طرف جانے والے راستے بلاک کر دیے گئے تھے تو لوگوں کے لیے کہیں بھی سفر کرنا ناممکن ہو گیاتھا نہ ہی وہ گھر جا سکتے تھے ، نہ شہر سے باہر یا اندر، نہ اپنے کام پر۔ اور اسی دوران ہونے والے مظاہروں کی وجہ سے اسلام آباد اور لاہور ائیر پورٹ تقریبا َ بند پڑے تھے۔پروازیں، بسوں کا آنا جانا، روز مرہ کا کاروبار سب سکیورٹی کے لیے بند کر دیے جاتے ہیں۔ ہرچیز غیر حتمی طورپر رک سی جاتی ہے اورزندگی کبھی چلتی ، کبھی رکتی ہے۔ لیکن جب تشدد کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس کا اصل نشانہ کون بنتا ہے؟
کون ان گلی محلوں میں اپنی جان، اپنے اثاثوں اور اپنے ہوش و حواس سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے؟ یقیناَ یہ لوگ خاکی وردی میں نہیں ہوتے نہ ہی بڑی بڑی گاڑیوں میں سوارہوتے ہیں؟ پولیس ، رینجرز اور فوج سب لوگوں کو تحفظ کرنے کی بجائے چند ایک گھروں، عمارتوں ، ہیڈکواٹروں یا شاید کسی گالف کورس کے تحفظ پر مامور نظر آتے ہیں۔ عوام کا کتنا پیسہ اقتدار میں بیٹھے ان افراد کو پروٹوکول دینے میں جھونک دیا جاتا ہے ۔ کتنے ہی افراد ان کی خدمت میں مامور ہوتے ہیں اور کتنی ہی گاڑیاں انکے قافلوں میں شامل ہوتی ہیں۔ اس دوران میں کتنے لوگوں کو اپنے کام ، کسی میٹنگ، یا شاید کسی ہسپتال میں کسی ایمرجنسی میں پہنچنے کے لیے جام ہوکر رہ جاتے ہیں مزے کی بات یہ کہ مجھے سڑکوں ہر جتنی ذیادہ سکیورٹی نظرآتی ہے اتنا ہی میں اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتا ہوں۔ ا س کے باوجود ویسے ہی بم دھماکے ہو رہے ہیں، فرقہ وارانہ قتل و غارت بھی ویسے ہی جاری ہے اور ہم سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ہم وردی والے محافظوں پر اعتبار کریں اور ان کے ساتھ تعاون کریں کیونکہ وہ ہمارے لیے ہی تو باہر کھڑے ہیں۔یہ بھی کیا خوب دھوکہ ہے۔ وہ یقیناَ باہر موجود ہیں لیکن میرے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ کچھ مقاصدی گروہوں، طاقت ور شخصیات اور جرنیلوں کے لیے۔ مجھے تو ان لوگوں کی وجہ سے صرف پریشانی اور تاخیر ہی نصیب ہوئی ہے۔ہمارے ہاں بھی سکیورٹی کا کچھ عجیب ہی حساب ہے۔  

No comments:

Post a Comment